Jump to content

Wikipedia:Sandbox: Difference between revisions

From Wikipedia, the free encyclopedia
Content deleted Content added
Hazard-Bot (talk | contribs)
m Bot: Reinserting sandbox header
Tag: Reverted
No edit summary
Tags: Reverted Mobile edit Mobile web edit
Line 7: Line 7:


سلطان الفقراء حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی المعروف فقیر اللہ والا سئیں
سلطان الفقراء حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی المعروف فقیر اللہ والا سئیں

حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی فقیر اللہ والا سئیں

تحریر .. محمد عدنان فدا سعیدی

مردان حق نے جہاں بھی ڈیرے ڈالے وہاں رحمت باری ابر کرم کی مثل برسی مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کی ایک بستی چنگو والا (موجودہ عید گاہ کوٹلہ بند علی جھگی والا ) میں میاں لعل محمد کے آنگن میں قریبآ 1840ء میں کھلنے والے گل ولایت نے گلستان فقر کو خوب مہکایا ... اس مرد حق کے آنے سے پہلے ہی ولایت کے رنگ نظر آنا شروع ہوگئے . آپ اپنی والدہ ماجدہ کے شکم میں تشریف لائے تو آنگن میں مسرتیں عود کر آئیں... ایک روز پیر طریقت حضرت خواجہ سلطان احمد دین اویسی رح کا گزر وہاں سے ہوا تو جب آپ اس گلی سے گزرے تو آگے جاکر رک گئے اور پوچھا کہ یہ کس کا مکان ہے ؟ جواب ملا کہ یہ میاں لعل محمد کا مکان ہے .اور آپ نے میاں لعل محمد کو طلب کیا اور استفسار فرمایا کہ کیا آپ کی اہلیہ محترمہ حاملہ ہیں؟؟ منکسر المزاج میاں لعل محمد نے مودبانہ عرض کی جی حضور -! ... اس پر حضرت سلطان احمد دین اویسی نے فرمایا ایک ولی کامل سے باری تعالی آپ کو سرفراز فرمائے گا اور ہماری امانت ہے ہم آئیں گے اور آپ سے لے جائیں گے ... پھر حضرت میاں محمد بخش سئیں کی ولادت سے چند دن پہلے ایک مجذوب فقیر سحری کے وقت اس گلی میں آتا اور خوشی سے کہتا کہ آج ہمارے یار کے آنے میں اتنے دن رہ گئے پھر کچھ دیر بعد چلا جاتا... ایسے معمول رہا جس دن آپ تشریف لا رہے تھے اس دن وہ مجذوب آخری بار آیا اور خوشی سے رقص کرتے ہوئے چلا گیا کہ آج ہمارا یار آگیا..اس کے بعد کبھی بھی اس مجذوب فقیر کو نہیں دیکھا گیا....
جب حضرت میاں محمد بخش اویسی اس جہان رنگ و بو میں تشریف فرما ہوئے تو آپ رو نہیں رہے تھے سب حیران و پریشان کہ جسم میں جان بھی ہے اور رونے کی آواز بھی نہیں آرہی. تھپکیوں سے آپ کو سہلایا گیا پر آپ نہ روئے اس پہ کسی نے کہا کہ جو روتے ہوئے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنے آیا ہو وہ بھلا کیسے خود روئے گا ... سبحان اللہ
آپ کے والد گرامی میاں لعل محمد ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے ایک ہندو کے ہاں کام کرتے تھے اور مال مویشی کی دیکھ بھال بھی کرتے چراگاہوں تک لے جاتے اور شام ہوتے ہی گھر کی راہ لیتے اسی طرح حضرت میاں محمد بخش سئیں کو 7 سال کی عمر میں ہی مال مویشی کی نگہبانی کے لیے مقرر کردیا... آپ مویشیوں کو جنگل میں لے جاتے اور خود ذکر خدا میں مصروف رہتے مویشی ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوتے اور ذرا بھی تنگ نہ کرتے حالانکہ باقی چرواہوں کے مال مویشی انہیں دوڑا دوڑا کے تھکا دیتے یا ادھر ادھر کی فصلوں کو نقصان پہنچاتے .. جب لوگوں نے دیکھا کہ اس بچے کا مال مویشی کہیں نہیں بھاگتا سکون سے گھاس کھاتا ہے اور واپس گھر آجاتا ہے لوگ کہنے لگے بھئی یہ تو کوئی اللہ والا ہے . جب سب چرواہےآپ کو دیکھتے تو آپ ذکر الہی میں مصروف ہوتے اور آپکے دل کی دھڑکن سے اللہ ہو کی صدا آتی .. بس اسی وجہ سے آپ کا نام اللہ والا مشہور ہو گیا اور آگے چل کے فقیر اللہ والا سئیں نے میدان ولایت میں اپنا منفرد مقام بنایا ... جب حضرت میاں محمد بخش سئیں مال مویشی کو چراگاہوں تک لے جانے لگے اور لوگوں میں فقیر اللہ والا کے نام سے پہچانے جانے لگے اسی سال ہی شیخ طریقت حضرت سلطان احمد دین سیرانی (آستانہ عالیہ حضرت محکم الدین سیرانی خانقاہ شریف ) دوبارہ تشریف لائے اور میاں لعل محمد سے ملاقات ہوئی تو اپنی امانت طلب فرمائی جب پتا چلا کہ. آپ تو مال مویشی کی نگہبانی پہ مامور ہیں تو فرمایا کیا ہم نے یہ امانت اس لیے دی تھی کہ ان سے مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام لیا جائے-؟ ہماری امانت دیجئے ہم ان کو کامل و اکمل کر کے لوٹائیں گے لہذا حضرت میاں محمد بخش فقیر اللہ والا سئیں کو سات سال کی عمر میں ہی اپنے ساتھ خانقاہ شریف لے گئے اور وہاں آپ کی مکمل تعلیم و تربیت فرمائی آپ کو معرفت کی منزلیں طے کروائیں آپ جب مقام محبوبیت پہ فائز ہوچکے تو اپنے مرشد کریم کے حکم سے باز والا کے علاقہ میں ایک ایسی جگہ پہ ڈیرہ لگایا جہاں لوگ ڈر کے گزرتے تھے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ ایک ولی کامل کی آمد سے وہ جگہ بقئہ نور بن گئی اور وہ بستی ہی فقیر اللہ والا سئیں کے نام سے منسوب ہوگئی جہاں آج بھی رحمت کی برسات برس رہی ہے... آپ کی بستی کے قریب کوٹلہ بند علی میں ایک مندر ہوا کرتا تھا جس میں ہندووں کی مذہبی کتاب وید کی تعلیم دی جاتی تھی آپ رح نے ایک بار موقع پاکر سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے مندر میں موجود سارے بتوں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کاندھے پہ رکھ دیا جب سب اکٹھے ہوئے تو آپ نے ان سب کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا جب یہ بت خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو آپ کو کیا فائدہ پہنچائیں گے؟ آپ کی مدلل گفتگو سن کر اسی وقت کئی ہندوؤں نے دین اسلام قبول کرلیا.
حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی رح کی محبت و عقیدت کا محور سرور عالم سید عالم جان کائنات فخر موجودات سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک رہی ... ساری زندگی محبوب خدا کی سنت پہ عمل پیرا رہے اور "الفقر فخری " کے فرمان پہ اس طرح کاربند رہے کہ آپ فقیر اللہ والا سئیں ہی کے نام سے جانے جاتے ہیں . محبوب سید المرسلین سلطان العاشقین سند الواسلین حضرت خواجہ اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کے فیض سے لبریز جام پینے والے حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی نے اتنا نوازشات فرمائیں کہ آپ کا دامن نعمت ولایت و معرفت سے بھر گیا اور اس سے کئی طالب حق مستفید ہوئے مرشد کریم حضرت سلطان احمد دین اویسی سیرانی کی تربیت ہی تھی کہ آپ نے جدھر بھی رخ کیا تشنگان معرفت کو سیراب کرتے چلے گئے آپ سے منسوب ہر شخص آپ کا ہر مرید اس بات کا عین عکاس دکھائی دیتا ہے . آپ کی کرامات کی فہرست کافی طویل ہے جس پہ سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے
لنگر کو نور سمجھ کر کھانا آپ کی کرامت ہے کہ جتنا بھی لنگر کھا لیا جائے بس خیال آئے کہ یہ نور ہے تو اس کی مقدار چاہے جتنا بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا... دریائے سندھ کو پار کرتے ہوئے کشتی پہ سواری فرمایا کرتے تھے ایک روز ایک مرید کو شانوں سے پکڑ کے دریا میں ڈال دیا دیکھنے والوں میں کھلبلی مچ گئی کہ "فقیر سئیں نے بندہ مار دیا دریا میں ڈال دیا'' آپ مسکراتے رہے پندرہ ، بیس منٹ کئ بعد آپ نے دریا کے پانی میں ہاتھ ڈالا اور اس مرید کو دوبارہ صحیح سلامت کشتی میں لابٹھایا. اس کے علاوہ آپ کئی بد عقیدہ لوگوں کو راہ راست پہ لے آئے
ایسی متعدد کرامات آپ نے دکھائیں .
آپ کے پورے پاکستان میں مریدین موجود ہیں اور اکثر جگہوں پہ آپ خود تشریف لے جایا کرتے تھے . آپ کے مرشد کریم کے برادر اکبر پیر طریقت میاں حافظ محمود اویسی سیرانی سئیں نے آپ کو خلافت عطا فرمائی پھر حضرت فقیر اللہ والا سئیں کے ایک خاص خلیفہ تھے حضرت کمال فقیر اویسی . جن کا تعلق ماڑی کوہ سے تھا اور وہ اکثر و بیشتر آپ کی خدمت میں حاضر رہتے حضرت کمال فقیر میں اپنے مرشد کا ادب کوٹ کوٹ کے بھرا تھا اور ان کی محبت اپنے شیخ کریم سے دیدنی تھی
حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی المعروف فقیر اللہ والا سئیں کے متعدد خلفاء تھے جن کی محبت اپنے مرشد کے ساتھ قابل تحسین تھی
سندھ سے آپ کے ایک خلیفہ گلن فقیر گزرے ہیں جن کو آپ نے صرف دس روپے دے کے حکم دیا تھا کہ جاو حج کرکے آو.. اس دور میں صرف بحری سفر ہی ممکن تھا اخراجات بھی سینکڑوں کے تھے پر گلن فقیر اویسی کے پاس صرف دس روپے جو مرشد نے عطا فرمائے کہ فریضہ حج ادا کر آئیے جب گلن فقیر سئیں سمندر پہ پہنچے تو دیکھا کہ حجاز مقدس جانے کے لیے عشاقان کا قافلہ تیار ہے اور کشتی خراب ہوچکی ہے سب لوگ اسے درست کرنے میں لگے ہیں مگر کوئی بھی اسے چلنے کے قابل نہ بنا سکا جب کافی دیر گزر گئی تو گلن فقیر سئیں نے کہا کہ اگر اجازت دیں تو میں کشتی ٹھیک کردوں -؟ سب نے کہا ہاں کیوں نہیں. جب گلن فقیر نزدیک پہنچے تو ہاتھ لگاتے ہی کشتی میں جیسے جان آگئی ہو کشتی ٹھیک ہوگئی . وہ سب لوگ آپ سے انتہائی خوش ہوئے اور بغیر کسی رقم و اخراجات کے آپ کو حج پہ ساتھ ہی لے گئے .. جب گلن فقیر فریضہ حج ادا کرکے واپس آئے تو ان کی جیب میں وہی دس روپے ویسے کے ویسے ہی موجود تھے..
بلوچستان سے آپ کے خلیفہ فقیر امیر بخش اویسی گزرے ہیں جو فنا فی الشیخ کے مقام پہ فائز تھے جب فقیر امیر بخش اویسی کو تیسرے روز کی شب کو اپنے مرشد کے وصال کی خبر دی گئی تو مرشد کریم کی جدائی کے صدمے کی تاب نہ لاسکے اور جاں جان آفریں کے سپرد کر دی علی الصبح ہی آپ کا جنازہ ادا کیا گیا .
حضرت میاں محمد بخش اویسی پہ چونکہ سلسلہ اویسیہ کے بزرگان کی خاص نگاہ عنایت رہی اسی لیے آپ نے اولیاء اللہ میں خاص مقام پایا . آپ کے مرشد خانہ کی آپ پہ نوازشات قابل ستائش ہیں .. آپ کے ہم عصر اتقیاء و صالحین میں سلطان العاشقین حضرت خواجہ غلام فرید تاجدار کوٹ مٹھن شریف سر فہرست ہیں جن سے آپ کو خاص محبت تھی... ایک اور بزرگ حضرت قائم دین سیرانی المعروف محب فقیر سئیں آپ کے پیر بھائی بھی تھے اور آپ کے خلیفہ بھی رہے
فاتح قادیانیت و قاطع قادیانیت حضرت پیر مہر علی شاہ تاجدار گولڑہ شریف جب عرس مبارک پہ پاکپتن تشریف لاتے تو حضرت میاں سلطان احمد دین اویسی سئیں بھی ہر سال ملاقات فرماتے ایک سال آپ نا جاسکے تو اپنے خاص خلیفہ فقیر اللہ والا سئیں کو بھیجا جب حضرت میاں محمد بخش اویسی سئیں پاکپتن حاضر ہوئے تو دیکھا ہجوم کافی سارا ہے کیسے ملاقات ہوگی اسی اثناء میں ایک شخص لوگوں کو ہٹاتے ہٹاتے راستہ بناتا آیا اور آپ کو سٹیج کی طرف آپ کا بازو تھام کے لے گیا جونہی حضرت پیر مہر علی شاہ نے آپ کو دیکھا آپ کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور فرمایا کہ آپ کے ماتھے میں اویسی نور مجھے بے تاب کررہا تھا آپ کیا سمجھے میں نا جان سکوں گا؟ اس طرح خوب محبت کا اظہار فرمایا.. حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی المعروف فقیر اللہ والا سئیں نے ساری زندگی عشق مصطفی کی تبلیغ کی یہی وجہ ہے کہ آپ کے آنگن میں عشاقان رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نے جنم لیا. آپ کے گھرانے کے عظیم چشم و چراغ پیر طریقت حضرت میاں محمد شفیع اویسی سیرانی سئیں رح اور موجودہ سجادہ نشین ڈاکٹر میاں محمد رفیع اویسی سئیں اس کی اہم مثال ہیں آپ کے مریدین و عقیدتمندوں کی ملک کے ہر کونے میں ایک کثیر تعداد موجود ہے. آپ کا وصال 2 شعبان بروز اتوار 1411 ہجری ، بمطابق 17 فروری 1991ء میں ہوا.. آپ کا مزار پر انوار بستی فقیر اللہ والا سئیں (یونین کونسل باز والا تحصیل علی پور ) میں مرجع خلائق ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال 2-3 شعبان کو منایا جاتا ہے جہاں سے عقیدت مند اپنی من کی مرادیں پاتے ہیں.

Revision as of 10:46, 13 December 2025

سلطان الفقراء حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی المعروف فقیر اللہ والا سئیں

حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی فقیر اللہ والا سئیں

تحریر .. محمد عدنان فدا سعیدی

مردان حق نے جہاں بھی ڈیرے ڈالے وہاں رحمت باری ابر کرم کی مثل برسی مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کی ایک بستی چنگو والا (موجودہ عید گاہ کوٹلہ بند علی جھگی والا ) میں میاں لعل محمد کے آنگن میں قریبآ 1840ء میں کھلنے والے گل ولایت نے گلستان فقر کو خوب مہکایا ... اس مرد حق کے آنے سے پہلے ہی ولایت کے رنگ نظر آنا شروع ہوگئے . آپ اپنی والدہ ماجدہ کے شکم میں تشریف لائے تو آنگن میں مسرتیں عود کر آئیں... ایک روز پیر طریقت حضرت خواجہ سلطان احمد دین اویسی رح کا گزر وہاں سے ہوا تو جب آپ اس گلی سے گزرے تو آگے جاکر رک گئے اور پوچھا کہ یہ کس کا مکان ہے ؟ جواب ملا کہ یہ میاں لعل محمد کا مکان ہے .اور آپ نے میاں لعل محمد کو طلب کیا اور استفسار فرمایا کہ کیا آپ کی اہلیہ محترمہ حاملہ ہیں؟؟ منکسر المزاج میاں لعل محمد نے مودبانہ عرض کی جی حضور -! ... اس پر حضرت سلطان احمد دین اویسی نے فرمایا ایک ولی کامل سے باری تعالی آپ کو سرفراز فرمائے گا اور ہماری امانت ہے ہم آئیں گے اور آپ سے لے جائیں گے ... پھر حضرت میاں محمد بخش سئیں کی ولادت سے چند دن پہلے ایک مجذوب فقیر سحری کے وقت اس گلی میں آتا اور خوشی سے کہتا کہ آج ہمارے یار کے آنے میں اتنے دن رہ گئے پھر کچھ دیر بعد چلا جاتا... ایسے معمول رہا جس دن آپ تشریف لا رہے تھے اس دن وہ مجذوب آخری بار آیا اور خوشی سے رقص کرتے ہوئے چلا گیا کہ آج ہمارا یار آگیا..اس کے بعد کبھی بھی اس مجذوب فقیر کو نہیں دیکھا گیا.... جب حضرت میاں محمد بخش اویسی اس جہان رنگ و بو میں تشریف فرما ہوئے تو آپ رو نہیں رہے تھے سب حیران و پریشان کہ جسم میں جان بھی ہے اور رونے کی آواز بھی نہیں آرہی. تھپکیوں سے آپ کو سہلایا گیا پر آپ نہ روئے اس پہ کسی نے کہا کہ جو روتے ہوئے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنے آیا ہو وہ بھلا کیسے خود روئے گا ... سبحان اللہ آپ کے والد گرامی میاں لعل محمد ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے ایک ہندو کے ہاں کام کرتے تھے اور مال مویشی کی دیکھ بھال بھی کرتے چراگاہوں تک لے جاتے اور شام ہوتے ہی گھر کی راہ لیتے اسی طرح حضرت میاں محمد بخش سئیں کو 7 سال کی عمر میں ہی مال مویشی کی نگہبانی کے لیے مقرر کردیا... آپ مویشیوں کو جنگل میں لے جاتے اور خود ذکر خدا میں مصروف رہتے مویشی ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوتے اور ذرا بھی تنگ نہ کرتے حالانکہ باقی چرواہوں کے مال مویشی انہیں دوڑا دوڑا کے تھکا دیتے یا ادھر ادھر کی فصلوں کو نقصان پہنچاتے .. جب لوگوں نے دیکھا کہ اس بچے کا مال مویشی کہیں نہیں بھاگتا سکون سے گھاس کھاتا ہے اور واپس گھر آجاتا ہے لوگ کہنے لگے بھئی یہ تو کوئی اللہ والا ہے . جب سب چرواہےآپ کو دیکھتے تو آپ ذکر الہی میں مصروف ہوتے اور آپکے دل کی دھڑکن سے اللہ ہو کی صدا آتی .. بس اسی وجہ سے آپ کا نام اللہ والا مشہور ہو گیا اور آگے چل کے فقیر اللہ والا سئیں نے میدان ولایت میں اپنا منفرد مقام بنایا ... جب حضرت میاں محمد بخش سئیں مال مویشی کو چراگاہوں تک لے جانے لگے اور لوگوں میں فقیر اللہ والا کے نام سے پہچانے جانے لگے اسی سال ہی شیخ طریقت حضرت سلطان احمد دین سیرانی (آستانہ عالیہ حضرت محکم الدین سیرانی خانقاہ شریف ) دوبارہ تشریف لائے اور میاں لعل محمد سے ملاقات ہوئی تو اپنی امانت طلب فرمائی جب پتا چلا کہ. آپ تو مال مویشی کی نگہبانی پہ مامور ہیں تو فرمایا کیا ہم نے یہ امانت اس لیے دی تھی کہ ان سے مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام لیا جائے-؟ ہماری امانت دیجئے ہم ان کو کامل و اکمل کر کے لوٹائیں گے لہذا حضرت میاں محمد بخش فقیر اللہ والا سئیں کو سات سال کی عمر میں ہی اپنے ساتھ خانقاہ شریف لے گئے اور وہاں آپ کی مکمل تعلیم و تربیت فرمائی آپ کو معرفت کی منزلیں طے کروائیں آپ جب مقام محبوبیت پہ فائز ہوچکے تو اپنے مرشد کریم کے حکم سے باز والا کے علاقہ میں ایک ایسی جگہ پہ ڈیرہ لگایا جہاں لوگ ڈر کے گزرتے تھے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ ایک ولی کامل کی آمد سے وہ جگہ بقئہ نور بن گئی اور وہ بستی ہی فقیر اللہ والا سئیں کے نام سے منسوب ہوگئی جہاں آج بھی رحمت کی برسات برس رہی ہے... آپ کی بستی کے قریب کوٹلہ بند علی میں ایک مندر ہوا کرتا تھا جس میں ہندووں کی مذہبی کتاب وید کی تعلیم دی جاتی تھی آپ رح نے ایک بار موقع پاکر سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے مندر میں موجود سارے بتوں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کاندھے پہ رکھ دیا جب سب اکٹھے ہوئے تو آپ نے ان سب کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا جب یہ بت خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو آپ کو کیا فائدہ پہنچائیں گے؟ آپ کی مدلل گفتگو سن کر اسی وقت کئی ہندوؤں نے دین اسلام قبول کرلیا. حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی رح کی محبت و عقیدت کا محور سرور عالم سید عالم جان کائنات فخر موجودات سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک رہی ... ساری زندگی محبوب خدا کی سنت پہ عمل پیرا رہے اور "الفقر فخری " کے فرمان پہ اس طرح کاربند رہے کہ آپ فقیر اللہ والا سئیں ہی کے نام سے جانے جاتے ہیں . محبوب سید المرسلین سلطان العاشقین سند الواسلین حضرت خواجہ اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کے فیض سے لبریز جام پینے والے حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی نے اتنا نوازشات فرمائیں کہ آپ کا دامن نعمت ولایت و معرفت سے بھر گیا اور اس سے کئی طالب حق مستفید ہوئے مرشد کریم حضرت سلطان احمد دین اویسی سیرانی کی تربیت ہی تھی کہ آپ نے جدھر بھی رخ کیا تشنگان معرفت کو سیراب کرتے چلے گئے آپ سے منسوب ہر شخص آپ کا ہر مرید اس بات کا عین عکاس دکھائی دیتا ہے . آپ کی کرامات کی فہرست کافی طویل ہے جس پہ سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے لنگر کو نور سمجھ کر کھانا آپ کی کرامت ہے کہ جتنا بھی لنگر کھا لیا جائے بس خیال آئے کہ یہ نور ہے تو اس کی مقدار چاہے جتنا بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا... دریائے سندھ کو پار کرتے ہوئے کشتی پہ سواری فرمایا کرتے تھے ایک روز ایک مرید کو شانوں سے پکڑ کے دریا میں ڈال دیا دیکھنے والوں میں کھلبلی مچ گئی کہ "فقیر سئیں نے بندہ مار دیا دریا میں ڈال دیا آپ مسکراتے رہے پندرہ ، بیس منٹ کئ بعد آپ نے دریا کے پانی میں ہاتھ ڈالا اور اس مرید کو دوبارہ صحیح سلامت کشتی میں لابٹھایا. اس کے علاوہ آپ کئی بد عقیدہ لوگوں کو راہ راست پہ لے آئے ایسی متعدد کرامات آپ نے دکھائیں . آپ کے پورے پاکستان میں مریدین موجود ہیں اور اکثر جگہوں پہ آپ خود تشریف لے جایا کرتے تھے . آپ کے مرشد کریم کے برادر اکبر پیر طریقت میاں حافظ محمود اویسی سیرانی سئیں نے آپ کو خلافت عطا فرمائی پھر حضرت فقیر اللہ والا سئیں کے ایک خاص خلیفہ تھے حضرت کمال فقیر اویسی . جن کا تعلق ماڑی کوہ سے تھا اور وہ اکثر و بیشتر آپ کی خدمت میں حاضر رہتے حضرت کمال فقیر میں اپنے مرشد کا ادب کوٹ کوٹ کے بھرا تھا اور ان کی محبت اپنے شیخ کریم سے دیدنی تھی حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی المعروف فقیر اللہ والا سئیں کے متعدد خلفاء تھے جن کی محبت اپنے مرشد کے ساتھ قابل تحسین تھی سندھ سے آپ کے ایک خلیفہ گلن فقیر گزرے ہیں جن کو آپ نے صرف دس روپے دے کے حکم دیا تھا کہ جاو حج کرکے آو.. اس دور میں صرف بحری سفر ہی ممکن تھا اخراجات بھی سینکڑوں کے تھے پر گلن فقیر اویسی کے پاس صرف دس روپے جو مرشد نے عطا فرمائے کہ فریضہ حج ادا کر آئیے جب گلن فقیر سئیں سمندر پہ پہنچے تو دیکھا کہ حجاز مقدس جانے کے لیے عشاقان کا قافلہ تیار ہے اور کشتی خراب ہوچکی ہے سب لوگ اسے درست کرنے میں لگے ہیں مگر کوئی بھی اسے چلنے کے قابل نہ بنا سکا جب کافی دیر گزر گئی تو گلن فقیر سئیں نے کہا کہ اگر اجازت دیں تو میں کشتی ٹھیک کردوں -؟ سب نے کہا ہاں کیوں نہیں. جب گلن فقیر نزدیک پہنچے تو ہاتھ لگاتے ہی کشتی میں جیسے جان آگئی ہو کشتی ٹھیک ہوگئی . وہ سب لوگ آپ سے انتہائی خوش ہوئے اور بغیر کسی رقم و اخراجات کے آپ کو حج پہ ساتھ ہی لے گئے .. جب گلن فقیر فریضہ حج ادا کرکے واپس آئے تو ان کی جیب میں وہی دس روپے ویسے کے ویسے ہی موجود تھے.. بلوچستان سے آپ کے خلیفہ فقیر امیر بخش اویسی گزرے ہیں جو فنا فی الشیخ کے مقام پہ فائز تھے جب فقیر امیر بخش اویسی کو تیسرے روز کی شب کو اپنے مرشد کے وصال کی خبر دی گئی تو مرشد کریم کی جدائی کے صدمے کی تاب نہ لاسکے اور جاں جان آفریں کے سپرد کر دی علی الصبح ہی آپ کا جنازہ ادا کیا گیا .

 حضرت میاں محمد بخش اویسی  پہ چونکہ سلسلہ اویسیہ کے بزرگان کی خاص نگاہ عنایت رہی اسی لیے آپ   نے اولیاء اللہ  میں خاص مقام پایا . آپ کے مرشد خانہ کی  آپ پہ نوازشات قابل ستائش ہیں ..  آپ کے ہم عصر  اتقیاء و صالحین میں سلطان العاشقین  حضرت  خواجہ غلام فرید تاجدار   کوٹ مٹھن شریف  سر فہرست ہیں جن سے آپ کو خاص  محبت تھی... ایک اور بزرگ  حضرت قائم دین  سیرانی المعروف محب فقیر سئیں آپ کے پیر بھائی بھی تھے اور آپ کے خلیفہ بھی رہے  

فاتح قادیانیت و قاطع قادیانیت حضرت پیر مہر علی شاہ تاجدار گولڑہ شریف جب عرس مبارک پہ پاکپتن تشریف لاتے تو حضرت میاں سلطان احمد دین اویسی سئیں بھی ہر سال ملاقات فرماتے ایک سال آپ نا جاسکے تو اپنے خاص خلیفہ فقیر اللہ والا سئیں کو بھیجا جب حضرت میاں محمد بخش اویسی سئیں پاکپتن حاضر ہوئے تو دیکھا ہجوم کافی سارا ہے کیسے ملاقات ہوگی اسی اثناء میں ایک شخص لوگوں کو ہٹاتے ہٹاتے راستہ بناتا آیا اور آپ کو سٹیج کی طرف آپ کا بازو تھام کے لے گیا جونہی حضرت پیر مہر علی شاہ نے آپ کو دیکھا آپ کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور فرمایا کہ آپ کے ماتھے میں اویسی نور مجھے بے تاب کررہا تھا آپ کیا سمجھے میں نا جان سکوں گا؟ اس طرح خوب محبت کا اظہار فرمایا.. حضرت میاں محمد بخش اویسی سیرانی المعروف فقیر اللہ والا سئیں نے ساری زندگی عشق مصطفی کی تبلیغ کی یہی وجہ ہے کہ آپ کے آنگن میں عشاقان رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نے جنم لیا. آپ کے گھرانے کے عظیم چشم و چراغ پیر طریقت حضرت میاں محمد شفیع اویسی سیرانی سئیں رح اور موجودہ سجادہ نشین ڈاکٹر میاں محمد رفیع اویسی سئیں اس کی اہم مثال ہیں آپ کے مریدین و عقیدتمندوں کی ملک کے ہر کونے میں ایک کثیر تعداد موجود ہے. آپ کا وصال 2 شعبان بروز اتوار 1411 ہجری ، بمطابق 17 فروری 1991ء میں ہوا.. آپ کا مزار پر انوار بستی فقیر اللہ والا سئیں (یونین کونسل باز والا تحصیل علی پور ) میں مرجع خلائق ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال 2-3 شعبان کو منایا جاتا ہے جہاں سے عقیدت مند اپنی من کی مرادیں پاتے ہیں.